حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے ان برگزیدہ نبیوں میں شامل ہیں جنہیں توحید کا پیغام دینے کے لیے مبعوث کیا گیا۔ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ قربانی، صبر، اور ایمان ک ایک ایسا روشن باب ہے جس سے ہر دور کے انسان رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں ہم آپ علیہ السلام کے زندگی کے ایک اہم واقعے کو تفصیل سے بیان کریں گے، جو اللہ کی قدرت اور آپ کے ایمان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔
for more articles check khwajawrites website
قوم کی گمراہی
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعلق ایک ایسی قوم سے تھا جو صدیوں سے بت پرستی کی دلدل میں پھنس چکی تھی۔ یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو خدا مانتے تھے، ان کی عبادت کرتے، اور ان سے اپنی حاجتیں مانگتے۔ آپ کے والد آزر بھی بت بنانے کا پیشہ کرتے تھے، اور قوم کے باقی افراد کی طرح وہ بھی گمراہی میں مبتلا تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کم عمری میں ہی ان بتوں کی حقیقت کو سمجھ لیا تھا۔ آپ نے سوچا کہ یہ بےجان مخلوق کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتی، پھر یہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں؟
توحید کی دعوت
جب آپ جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ نے اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی دعوت دینی شروع کی۔ آپ نے انہیں سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی
دلائل سے وضاحت
آپ نے اپنی قوم سے کہا:”یہ کیسا خدا ہے جو نہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے، اور نہ ہی کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے؟”
آسمانی نشانیوں کی طرف رہنمائی
ایک موقع پر آپ نے چاند، سورج، اور ستاروں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر یہ مخلوقات بھی ڈوب جاتی ہیں، تو ان کا خالق کوئی اور ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔
مگر قوم نے آپ کی باتوں کو نہ مانا اور اپنی ضد پر قائم رہی۔
بت شکنی کا عظیم واقعہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوچا کہ قوم کو ان کی گمراہی کا عملی ثبوت دیا جائے۔ ایک دن جب قوم اپنے میلے کے لیے شہر سے باہر گئی، تو آپ بت خانے میں داخل ہوئے۔ وہاں قوم کے بڑے بڑے بت سجے ہوئے تھے۔ آپ نے ان تمام بتوں کو توڑ دیا، مگر سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور اس کے گلے میں کلہاڑی لٹکا دی۔
جب قوم واپس آئی اور اپنے بتوں کو ٹوٹا ہوا پایا، تو وہ حیران اور غصے میں آ گئی۔ انہوں نے فوراً پوچھا
“یہ کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ کیا؟”
کسی نے کہا
“ہم نے ابراہیم کو ان کے خلاف بات کرتے ہوئے سنا تھا۔”
قوم نے آپ کو بلا کر سوال کیا
“کیا تم نے ہمارے خداؤں کو توڑا؟”
آپ نے حکمت سے جواب دیا
“یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہوگا۔ اسی سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتا ہے!”
یہ جواب سن کر قوم خاموش ہو گئی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ان کے بت بےجان ہیں اور بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مگر ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہوں نے سچائی کو قبول نہ کیا۔
آگ میں ڈالنے کا فیصلہ
قوم نے غصے میں آ کر آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے کہا
“اسے جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔” (سورہ الانبیاء: 68)
انہوں نے ایک بہت بڑی آگ جلائی جو اتنی شدید تھی کہ قریب جانا ممکن نہ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک منجنیق کے ذریعے اس آگ میں پھینکنے کا انتظام کیا گیا۔
اللہ کا معجزہ
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا اور آگ کو حکم دیا
“اے آگ! سرد ہو جا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے سلامتی کا ذریعہ بن جا!” (سورہ الانبیاء: 69)
آگ فوراً ٹھنڈی ہو گئی اور آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ یہ دیکھ کر قوم حیران رہ گئی، مگر ان کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی اور وہ ایمان نہ لائے۔
سبق
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر اللہ پر ایمان ہو، تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ ایمان، صبر، اور اللہ کی قدرت پر یقین کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔